دنیا میں آج جو کچھ ہو رہا ہے—ظلم، فتنہ، ناانصافی، قدرتی آفات، اور مسلم امہ کی حالت—یہ سب کچھ احادیث میں صدیوں پہلے بیان کر دیا گیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے واضح طور پر بتایا کہ قیامت سے پہلے ایسے حالات پیدا ہوں گے جو آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ موجودہ دنیا کے حالات احادیث کی روشنی میں کیسے بیان کیے گئے ہیں۔

1. فتنوں کا ظہور اور ناانصافی کا بڑھنا

آج دنیا بھر میں ظلم و ناانصافی بڑھتی جا رہی ہے۔ کمزور مظلوم ہے، اور طاقتور ظالم کا ساتھ دے رہا ہے۔ فلسطین، کشمیر، شام، اور دیگر مسلم علاقوں میں مسلمانوں پر جو ظلم ہو رہا ہے، کیا یہ سب پہلے سے نہیں بتایا گیا تھا؟

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ظالموں کی مدد کی جائے گی، خیانت کو عقل مندی سمجھا جائے گا، اور جھوٹے کو سچا مانا جائے گا۔”
(مسند احمد)

آج ہم دیکھتے ہیں کہ میڈیا پر جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، مظلوموں کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے، اور ظالموں کو معصوم دکھایا جا رہا ہے۔

2. امت مسلمہ کی کمزوری اور دشمنوں کا غلبہ

مسلمان آج تعداد میں بہت زیادہ ہیں، مگر طاقت اور اتحاد سے محروم ہیں۔ دشمنانِ اسلام مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں، مگر امت خاموش ہے۔ یہ بھی حدیث میں پہلے سے بیان کر دیا گیا تھا:

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
**”عنقریب دیگر قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔” صحابہ نے پوچھا: “کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟” فرمایا: “نہیں، بلکہ تم بہت زیادہ ہو گے، لیکن تمہاری حیثیت سمندر کی جھاگ جیسی ہو گی، اور اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ‘وہن’ ڈال دے گا۔” صحابہ نے عرض کیا: “یا رسول اللہ! وہن کیا ہے؟” فرمایا: “دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔”
(سنن ابو داود: 4297)

یہی کچھ آج ہو رہا ہے۔ امت مسلمہ دنیا کی محبت میں گرفتار ہے اور حق کے لیے کھڑا ہونے سے گھبرا رہی ہے۔

3. علماء کا گمراہ ہونا اور دین کو بیچنا

آج کچھ لوگ دین کو بیچ کر دنیاوی فائدے حاصل کر رہے ہیں۔ کئی نام نہاد علماء حق کے بجائے باطل کی حمایت کر رہے ہیں، اور دین کے احکامات کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“آخری زمانے میں ایسے لوگ آئیں گے جو دین کو دنیا کے بدلے بیچ دیں گے، ان کی زبانیں شہد سے زیادہ میٹھی ہوں گی لیکن ان کے دل بھیڑیوں کے جیسے ہوں گے۔”
(ترمذی: 2404)

یہی کچھ آج ہو رہا ہے۔ دین کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اور سچ کہنے والوں کو خاموش کیا جا رہا ہے۔

4. سود اور حرام کمائی کا عام ہونا

آج سودی نظام پوری دنیا میں چھایا ہوا ہے، اور حرام کمائی کو ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ حدیث میں اس کی بھی پیش گوئی کر دی گئی تھی۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کوئی شخص سود سے بچ نہ سکے گا، اور اگر بچنے کی کوشش کرے گا تو اس کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور اس تک پہنچے گا۔”
(سنن ابی داود: 3331)

یہی آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ معیشت سود پر چل رہی ہے، اور کوئی بھی اس سے مکمل طور پر بچ نہیں پا رہا۔

5. عورتوں کی بے حیائی اور فیشن پرستی

آج بے حیائی عام ہو چکی ہے، فیشن کے نام پر دین کے اصولوں کو چھوڑا جا رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس بارے میں پہلے سے خبردار کر دیا تھا:

“آخری زمانے میں ایسی عورتیں ہوں گی جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، ان کے سر اونٹ کے کوہان جیسے ہوں گے، وہ نہ جنت میں جائیں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو پائیں گی۔”
(مسلم: 2128)

یہ بات آج ہم سوشل میڈیا، فیشن انڈسٹری، اور جدید لائف اسٹائل میں واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔

6. قدرتی آفات اور زمین میں فساد

زلزلے، سیلاب، طوفان، اور دیگر قدرتی آفات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ یہ بھی حدیث میں بیان کر دیا گیا تھا:

“قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک زلزلے زیادہ نہ ہو جائیں۔”
(بخاری: 1036)

آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال کئی بڑے زلزلے، طوفان، اور دیگر آفات آ رہی ہیں۔

7. وقت کا تیزی سے گزرنا

آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ سال مہینوں کی طرح، مہینے ہفتوں کی طرح، اور ہفتے دنوں کی طرح گزر رہے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“قیامت کے قریب وقت سمٹ جائے گا، ایک سال ایک مہینے کی طرح، ایک مہینہ ایک ہفتے کی طرح، اور ایک ہفتہ ایک دن کی طرح ہو جائے گا۔”
(ترمذی: 2332)

یہ حقیقت آج ہم سب محسوس کر رہے ہیں۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

یہ تمام احادیث ہمیں خبردار کر رہی ہیں کہ ہم آخری زمانے کے فتنے میں جی رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ:

اللہ سے توبہ کریں اور دین کی طرف واپس آئیں۔
ظلم کے خلاف کھڑے ہوں اور سچ کا ساتھ دیں۔
دین کو دنیاوی فائدے کے لیے بیچنے سے بچیں۔
حلال کمائی کو اپنائیں اور سود سے بچیں۔
بے حیائی اور فحاشی سے دور رہیں۔
دعا کریں کہ اللہ ہمیں فتنے سے محفوظ رکھے۔

نتیجہ

احادیث میں بیان کردہ تمام نشانیاں آج پوری ہو رہی ہیں، اور ہمیں اس سے سبق لینا چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالیں، ورنہ ہم بھی ان فتنوں کا شکار ہو جائیں گے۔

اللّٰہ ہمیں ہدایت دے اور ہمیں فتنوں سے محفوظ رکھے، آمین!

 

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here