قبر سے آنے والی آواز: ایک ناقابلِ یقین مگر عبرتناک حقیقت
گلگت کے ایک پُرسکون گاؤں میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا، جس نے پورے علاقے میں خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی۔ یہ واقعہ ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو دنیا کی چمک دمک میں گم ہو کر اپنے دین اور آخرت کو بھول بیٹھے ہیں۔
قبرستان سے سنائی دینے والی پراسرار صدا
رات کا وقت تھا، ایک مسافر سنسان راستے پر چلتے ہوئے قبرستان کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اچانک اسے کسی کی مدھم سی آواز سنائی دی،
“مجھے نکالو! میں زندہ ہوں!”
پہلے تو اس نے اسے اپنا وہم سمجھا اور چلتا رہا، لیکن جب یہی آواز بار بار آنے لگی تو اس کا دل بے چینی سے دھڑکنے لگا۔ حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ وہ قریبی بستی کی طرف بھاگا اور وہاں کے لوگوں کو یہ ماجرا سنایا۔
بستی کے لوگ بھی حیران
اس کی بات سن کر چند لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا، مگر کچھ لوگ تجسس میں اس کے ساتھ قبرستان جا پہنچے۔ جیسے ہی سب نے خاموشی سے کان لگائے، وہی دل دہلا دینے والی صدا دوبارہ سنائی دی،
“مجھے نکالو! میں قبر میں زندہ ہوں!”
اب سب حیرت زدہ تھے، ان کے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ قبر کھولنا شرعی اعتبار سے درست ہوگا یا نہیں؟ چنانچہ وہ گاؤں کے امام کے پاس پہنچے اور ان سے مشورہ کیا۔ امام صاحب نے جب سارا واقعہ سنا تو فرمایا،
“اگر تمہیں اس کے زندہ ہونے کا یقین ہو چکا ہے تو قبر کھولنے میں کوئی حرج نہیں۔”
جب قبر کھولی گئی
لوگوں نے جرات کر کے قبر کھودنی شروع کی، اور جیسے ہی قبر کا تختہ ہٹایا، سب کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں۔ اندر ایک عورت برہنہ حالت میں بیٹھی ہوئی تھی، اس کا کفن مکمل گل چکا تھا۔ وہ کپکپاتی ہوئی بولی،
“جلدی کرو! میرے گھر سے میرے کپڑے لے آؤ، میں یوں باہر نہیں آ سکتی!”
فوراً کچھ لوگ اس کے گھر بھاگے، اس کے کپڑے لے کر آئے، اور قبر میں ڈال دیے۔ جیسے ہی اس نے کپڑے پہنے، وہ بجلی کی سی تیزی سے باہر نکلی اور بھاگتی ہوئی اپنے گھر جا پہنچی۔ وہاں جا کر اس نے خود کو ایک کمرے میں بند کر لیا۔
خوفناک انکشاف
اب پورے گاؤں میں چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔ سب اس عورت کی حقیقت جاننا چاہتے تھے۔ دروازے پر دستک دی گئی، اندر سے آواز آئی،
“میں دروازہ کھول دوں گی، مگر اندر وہی شخص آئے جو میری موجودہ حالت دیکھنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔”
چند دل گردے والے لوگ اندر گئے، اور جو منظر انہوں نے دیکھا، وہ ناقابلِ بیان تھا۔
- سر کی ہولناک حالت
عورت نے آہستہ سے اپنی چادر ہٹائی، اور سب کانپ کر رہ گئے۔ اس کے سر پر ایک بھی بال نہیں تھا، کھوپڑی ہڈیوں کی مانند چمک رہی تھی۔ لوگوں نے لرزتے ہوئے پوچھا،
“تیرے بال کہاں گئے؟”
وہ غمزدہ آواز میں بولی،
“میں بے پردہ باہر نکلا کرتی تھی، فرشتوں نے میرے ایک ایک بال کو نوچ لیا، اور اس کے ساتھ میرا گوشت بھی چھیل دیا!” - چہرے کی ہولناکی
پھر اس نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا۔ جو کچھ نظر آیا، وہ بیان سے باہر تھا۔ اس کے چہرے پر ہونٹ موجود نہیں تھے، بس دانتوں کی قطار نظر آ رہی تھی، جیسے کسی نے دونوں ہونٹ کاٹ دیے ہوں۔ سب سہم گئے، کسی کی زبان نہیں ہل رہی تھی۔
وہ خود ہی بولی،
“میں لپ اسٹک لگا کر نامحرم مردوں کے سامنے جایا کرتی تھی، اسی لیے میرے ہونٹ کاٹ دیے گئے!” - ہاتھ اور پیر کی انگلیاں
پھر اس نے اپنے ہاتھوں اور پیروں کو دکھایا، اس کی تمام انگلیوں کے ناخن غائب تھے۔
“تیری انگلیوں کے ناخن کہاں گئے؟”
وہ آنکھوں میں درد لیے بولی،
“میں ناخن پالش لگا کر فخر سے باہر نکلا کرتی تھی، فرشتوں نے ایک ایک ناخن جڑ سے کھینچ لیا!”
خوف کا ناقابلِ برداشت لمحہ
یہ سب سننے کے بعد کمرے میں موجود لوگ لرزنے لگے۔ جیسے ہی عورت نے آخری الفاظ کہے، وہ اچانک بے جان ہو کر گر پڑی۔ سب بھاگے، مگر وہ مکمل مردہ ہو چکی تھی۔ خوف و دہشت کے مارے کسی میں ہمت نہیں تھی کہ کچھ بولے۔
دوبارہ قبر میں دفن
لوگوں نے اس کا جسد قبرستان پہنچایا، دوبارہ دفن کر دیا۔ مگر یہ واقعہ ہمیشہ کے لیے ایک ایسی عبرت بن گیا، جسے آج بھی سن کر دل دہل جاتا ہے۔
عبرت کا سبق
یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کی چمک دمک میں کھو کر آخرت کو بھول جانا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ بے پردگی اور فحاشی کی محبت میں گم رہنے والے سوچیں کہ اگر یہی انجام ہوا، تو قیامت کے دن اللہ کا سامنا کیسے کریں گے؟
اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور نیک عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔