میزانِ اعمال: قیامت کے دن نیکیوں اور بدیوں کا حساب

اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمائش کے لیے پیدا کیا اور دنیا کو دارالعمل بنایا، جہاں ہر انسان کو اس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا دی جائے گی۔ قیامت کے دن سب سے بڑا مرحلہ میزانِ اعمال کا ہوگا، جہاں نیکیوں اور بدیوں کو تولا جائے گا۔ قرآن و حدیث میں اس دن کے بارے میں واضح احکامات موجود ہیں، جو ہمیں اس حقیقت کی یاد دلاتے ہیں کہ ہر عمل کا حساب ہوگا۔

میزانِ اعمال کی حقیقت

“میزان” عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب “ترازو” یا “تولنے کا آلہ” ہے۔ قیامت کے دن میزان قائم کی جائے گی، جہاں لوگوں کے اعمال کا وزن ہوگا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن انصاف کے ترازو قائم کیے جائیں گے اور کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔ اگر کسی کے اعمال میں رائی کے دانے کے برابر بھی نیکی یا برائی ہوگی تو وہ اس کے سامنے لائی جائے گی۔

یہ میزان عام دنیاوی ترازو کی طرح نہیں ہوگی بلکہ ایک ایسی میزان ہوگی جو ہر نیک اور بد عمل کو ناپنے کے قابل ہوگی۔

میزانِ اعمال کے ممکنہ نتائج

قرآن و سنت کے مطابق میزانِ اعمال میں تین طرح کے لوگ ہوں گے۔ کچھ وہ ہوں گے جن کی نیکیاں زیادہ ہوں گی، اور وہ کامیاب ہو جائیں گے۔ ان کے لیے جنت کی خوشخبری ہوگی، جہاں انہیں راحت اور دائمی نعمتیں حاصل ہوں گی۔

کچھ وہ ہوں گے جن کی برائیاں نیکیوں سے زیادہ ہوں گی۔ ان کے لیے نقصان اور عذاب ہوگا، اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔

کچھ وہ ہوں گے جن کے نیک اور بد اعمال برابر ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں ایک مخصوص مقام “اعراف” میں رکھا جائے گا، جہاں انہیں جنت یا جہنم میں بھیجنے کا فیصلہ بعد میں ہوگا۔

کون سے اعمال میزان میں بھاری ہوں گے؟

بعض اعمال ایسے ہیں جو میزان میں بہت بھاری ثابت ہوں گے اور انسان کی بخشش کا سبب بن سکتے ہیں۔

سب سے زیادہ وزنی چیز انسان کا ایمان ہے۔ اگر کسی کا ایمان درست اور کامل ہوگا، تو اس کے دیگر گناہ بھی معاف ہوسکتے ہیں۔

اچھے اخلاق بھی قیامت کے دن سب سے زیادہ وزن رکھنے والے اعمال میں شامل ہوں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میزان میں سب سے بھاری چیز اچھے اخلاق ہوں گے۔

اللہ کا ذکر بھی میزان میں بھاری ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے مگر میزان میں بھاری ہیں: سبحان اللہ و بحمدہ، سبحان اللہ العظیم۔

عدل و انصاف بھی ان اعمال میں شامل ہیں جو میزان میں بھاری ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ عدل کو پسند فرماتا ہے، اور جو بھی عدل کرے گا، اس کے اعمال کو اللہ کے ہاں وزنی بنایا جائے گا۔

دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے بھی کامیاب ہوں گے۔ والدین، یتیموں، بیواؤں اور مساکین کے ساتھ اچھا سلوک میزان میں بھاری ہوگا اور جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گا۔

میزان میں اعمال کا تولنے کا طریقہ

علمائے کرام کے مطابق قیامت کے دن تین طریقوں سے اعمال کا وزن کیا جائے گا۔

کچھ علما کا کہنا ہے کہ اعمال کو جسمانی صورت میں لا کر تولا جائے گا۔ اعمال کسی نہ کسی شکل میں ظاہر کیے جائیں گے اور انہیں میزان میں رکھا جائے گا۔

کچھ احادیث میں ذکر ملتا ہے کہ اعمال نامہ ترازو میں رکھا جائے گا اور اس کا وزن کیا جائے گا۔ ہر شخص کا نامۂ اعمال اس کے دائیں یا بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔

کچھ روایات کے مطابق بعض افراد کو خود میزان میں رکھ کر ان کی حقیقت واضح کی جائے گی۔ وہ لوگ جو حق پرست، پرہیزگار اور اللہ کے سچے بندے ہوں گے، وہ بھاری ثابت ہوں گے۔

میزانِ اعمال میں ہلکے پن کے اسباب

بعض اعمال ایسے ہیں جو انسان کے میزان کو ہلکا کردیتے ہیں اور قیامت کے دن نقصان کا سبب بنتے ہیں۔

سب سے بڑا گناہ شرک ہے، جو تمام اعمال کو برباد کر دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص شرک میں مبتلا ہوگا تو اس کے تمام اعمال بے وزن ہو جائیں گے۔

حقوق العباد کی پامالی بھی نیکیوں کو ضائع کردیتی ہے۔ کسی کا حق مارنا، ظلم کرنا، لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کرنا میزان میں کمی کا سبب بنتا ہے۔

ریاکاری کرنے والے بھی میزان میں نقصان اٹھائیں گے۔ اگر کوئی عمل اللہ کے لیے نہیں بلکہ دکھاوے کے لیے کیا جائے، تو وہ میزان میں وزن نہیں رکھتا۔

جھوٹ اور غیبت بھی نیکیوں کو ضائع کر دیتے ہیں۔ جو لوگ اپنی زبان کا صحیح استعمال نہیں کرتے، وہ قیامت کے دن نقصان میں ہوں گے۔

بدزبانی، جھگڑالو رویہ اور گالی گلوچ بھی میزان کو ہلکا کر دیتے ہیں۔ جو لوگ دوسروں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں اور ناپسندیدہ الفاظ استعمال کرتے ہیں، وہ قیامت کے دن پچھتائیں گے۔

میزانِ اعمال پر ایمان کے اثرات

جو شخص میزانِ اعمال پر ایمان رکھے گا، اس کے اعمال میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔ وہ ہر نیکی کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرے گا۔

گناہوں سے بچے گا، کیونکہ اسے معلوم ہوگا کہ ہر چیز کا حساب ہوگا۔

اچھے اخلاق اپنائے گا اور حقوق العباد کا خاص خیال رکھے گا۔

صدقہ و خیرات میں دلچسپی لے گا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ قیامت کے دن صدقہ نیکیوں کے پلڑے کو بھاری کرنے والا عمل ہے۔

یہ یقین اسے آخرت کی فکر میں مبتلا کرے گا اور وہ ہر لمحہ اپنی اصلاح کی کوشش میں لگا رہے گا۔

نتیجہ

میزانِ اعمال قیامت کے دن انصاف کا سب سے بڑا پیمانہ ہوگا۔ جو بھی شخص دنیا میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کرے گا، اس کے اعمال کا وزن بھاری ہوگا اور وہ جنت کا حق دار ہوگا۔ لیکن جو شخص گناہوں میں مبتلا ہوگا، اس کا انجام جہنم ہوگا۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اعمال کو بہتر بنانے کی کوشش کریں، اللہ کی اطاعت کریں، حقوق العباد کا خیال رکھیں، اور ایسے اعمال کریں جو قیامت کے دن ہمارے لیے نجات کا سبب بنیں۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here