یہ واقعہ کربلا تاریخ اسلام کے ان الم ناک اور لازوال سانحات میں سے ایک ہے جو قیامت تک نہیں بھلایا جا سکتا۔ نواسہ رسول، حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کی قربانی نے حق اور باطل کے درمیان ہمیشہ کے لیے ایک واضح لکیر کھینچ دی۔

یزید کی خلافت اور امام حسینؓ کا انکار

یزید خلافت کے منصب پر قابض ہو چکا تھا، اور اس کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج حضرت امام حسینؓ کی ذات تھی۔ آپ نے نانا کے دین پر مر مٹنے کی قسم کھائی تھی اور کسی ظالم کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہ تھے۔ یزید گمان کر رہا تھا کہ امام حسینؓ، اپنے والد حضرت علیؓ اور بھائی حضرت حسنؓ کی شہادت کے بعد کمزور ہو چکے ہیں، مگر وہ اس حقیقت سے غافل تھا کہ امام حسینؓ کے لیے دنیاوی حکومت کی کوئی وقعت نہ تھی۔

کوفہ والوں کی دعوت

کوفہ کے مظلوم عوام کی جانب سے امام حسینؓ کو سینکڑوں خطوط موصول ہوئے، جن میں انہیں یزید کی بے دینی اور مظالم سے آگاہ کیا گیا۔ ان خطوط میں التجا کی گئی کہ آپ کوفہ آئیں اور دین اسلام کو بچائیں۔ آپ کو اطلاع ملی کہ شراب نوشی عام ہو چکی ہے اور اسلامی اقدار پامال ہو رہی ہیں۔ اپنے نانا کے دین کو بچانے کی خاطر آپ نے مدینہ سے کوفہ جانے کا ارادہ کر لیا۔

مدینہ سے مکہ اور پھر کربلا کی طرف سفر

رجب 60 ہجری میں، امام حسینؓ اپنے 72 ساتھیوں اور اہلِ خانہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ مکہ پہنچنے کے بعد آپ کو خبر ملی کہ کوفہ کے حالات سازگار نہیں رہے، کیونکہ ابن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو دھوکے سے شہید کر دیا تھا۔ اس کے باوجود، امام حسینؓ نے حق کی راہ میں قدم آگے ہی بڑھایا اور دو محرم 61 ہجری کو کربلا پہنچے۔

کربلا: صبر و استقامت کی آزمائش

کربلا کے تپتے صحرا میں پہنچ کر امام حسینؓ نے خیمے لگائے۔ یزیدی فوج نے تین محرم الحرام کو آپ کے قافلے کو گھیرے میں لے لیا، اور سات محرم کو پانی کی فراہمی بند کر دی گئی۔ پیاس کی شدت سے بچوں، خواتین اور جان نثار ساتھیوں کی حالت بگڑنے لگی، مگر امام حسینؓ کا عزم متزلزل نہ ہوا۔

نو محرم کی رات: وفاداری کی مثال

نو محرم کی رات امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جو جانا چاہے، چلا جائے، کیونکہ اگلی صبح جنگ یقینی تھی۔ مگر کسی نے ساتھ نہ چھوڑا۔ سب نے حق پر قائم رہنے کی قسم کھائی۔

دسویں محرم: قربانی کی لازوال داستان

دس محرم کی صبح ایک ایک کر کے امام حسینؓ کے ساتھی شہید ہوتے گئے۔ حضرت عباسؓ، جو علمبردار تھے، مشکیزہ لے کر پانی لانے گئے، مگر دشمنوں نے حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا۔ پھر حضرت علی اکبرؓ، حضرت قاسمؓ، اور دیگر اہل بیت بھی شہید ہو گئے۔

امام حسینؓ کی آخری نماز

عصر کے وقت امام حسینؓ نے نماز ادا کرنے کے لیے سجدہ کیا تو شمر نے سر تن سے جدا کر دیا۔ یزیدی فوج نے خیموں کو آگ لگا دی اور اہل بیت کی خواتین کو قیدی بنا لیا۔

واقعہ کربلا کا پیغام

یہ معرکہ صبر، قربانی اور حق کی فتح کا اعلان تھا۔ امام حسینؓ کی شہادت نے امت مسلمہ کو سکھا دیا کہ ظلم کے آگے سر جھکانا مومن کی شان نہیں۔

یہ واقعہ رہتی دنیا تک انسانیت کو استقامت، صبر اور حق کی سربلندی کا درس دیتا رہے گا۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here