Home Blog Page 2

والدین کی خدمت: جنت کا راستہ کھل گیا

0

والدین کی خدمت: جنت کا راستہ کھل گیا

والدین کی خدمت صرف ایک ذمہ داری نہیں، بلکہ جنت کے دروازے کھولنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن اور حدیث میں بار بار والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ آج ہم ایک ایسے شخص کی حقیقی کہانی سنانے جا رہے ہیں، جس نے والدین کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا، اور اللہ نے اس کے لیے دنیا و آخرت کے دروازے کھول دیے۔

ایک نافرمان بیٹے کی آزمائش

یہ کہانی ایک نوجوان کی ہے، جو اپنی جوانی کی مستیوں میں مگن تھا۔ وہ دنیا کی لذتوں میں ایسا کھو گیا کہ والدین کی عزت اور خدمت کا خیال ہی نہ رہا۔ اس کی ماں بیمار رہتی تھی، لیکن وہ کبھی ان کی تیمارداری نہ کرتا۔ باپ بوڑھا ہو چکا تھا، مگر وہ انہیں نظر انداز کر دیتا۔ والدین کی دعاؤں کی بجائے، وہ ہمیشہ ان کی شکایات سنتا۔

ایک دن جب اس کی ماں شدید بیمار ہوئی، تو اس نے لاپروائی سے کہا:

“یہ بوڑھی عورت بس ہر وقت بیمار ہی رہتی ہے، میں کوئی خادم نہیں جو ہر وقت اس کی دیکھ بھال کرتا رہوں!”

یہ الفاظ ماں کے دل پر نشتر بن کر لگے، مگر انہوں نے کوئی بددعا نہ دی، بلکہ اللہ سے دعا کی:

“یا اللہ! میرے بیٹے کو ہدایت دے اور اس کے دل کو نرم کر دے!”

زندگی کا بڑا سبق

وقت گزرتا گیا، اور ایک دن وہ نوجوان ایک بڑے حادثے کا شکار ہو گیا۔ کار کا شدید تصادم ہوا، اور وہ کئی دن اسپتال میں بے ہوش رہا۔ جب ہوش آیا، تو اسے پتا چلا کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا۔ یہ خبر سن کر وہ رو پڑا اور بے بسی میں اللہ سے دعا کرنے لگا۔

چند دن بعد، اس کی ماں اسی بستر پر بیٹھی ہوئی اسے سہلا رہی تھی۔ جب اس نے آنکھ کھولی اور ماں کو اپنے قریب پایا، تو حیران رہ گیا۔ وہی ماں، جسے وہ نظر انداز کرتا تھا، آج اپنی کمزوری کے باوجود اس کی خدمت کر رہی تھی۔

اس دن اسے احساس ہوا کہ والدین کی خدمت کا حق ادا نہ کرنا دنیا اور آخرت دونوں میں خسارے کا باعث بنتا ہے۔ اس نے آنسو بہاتے ہوئے اپنی ماں کا ہاتھ تھاما اور کہا:

“ماں! میں بہت شرمندہ ہوں۔ میں نے کبھی آپ کی قدر نہیں کی، لیکن آج جب میں خود مجبور ہوا، تب جا کر احساس ہوا کہ آپ کی خدمت ہی میرا اصل فرض تھا۔”

اللہ کی رحمت اور زندگی کی بحالی

اس دن کے بعد، وہ نوجوان اپنے والدین کا فرمانبردار بیٹا بن گیا۔ دن رات ان کی خدمت میں لگا رہتا، دعائیں لیتا، اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا۔ چند مہینوں بعد، اللہ نے کرم کیا، اور وہ معجزانہ طور پر صحت یاب ہو گیا۔

اس کی زندگی بدل چکی تھی۔ والدین کی خدمت نے اس کے لیے جنت کا راستہ کھول دیا، اور وہ اللہ کا شکر گزار بندہ بن گیا۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں والدین کی خدمت

والدین کی خدمت کا ذکر قرآن میں یوں آیا ہے:

“اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔” (الاحقاف: 15)

اسی طرح، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“والدین کی رضا میں اللہ کی رضا ہے، اور والدین کی ناراضی میں اللہ کی ناراضی ہے۔” (ترمذی)

نتیجہ

یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ والدین کی خدمت دنیا اور آخرت میں کامیابی کی کنجی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں خوشحالی، برکت اور سکون ہو، تو ہمیں اپنے والدین کی عزت کرنی ہوگی، ان کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھنا ہوگا، اور ان کی دعائیں لینا ہوں گی۔

اللہ ہمیں والدین کی خدمت کرنے، ان کا حق ادا کرنے، اور جنت کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین! 🤲

Best 10 Sister Quotes in Urdu

0

The beautiful expressions in Sister quotes perfectly represent the profound relationship of love and friendship that sisters share. These statements showcase the combinations of loveable and humorous homecoming and inspirational qualities spanning youthful memories to everlasting friendship. The use of these quotes occurs across personal reflections and social media and card messages to honor the bond that transforms sisters into irreplaceable treasures.

Below are the Best 10 Sister Quotes in Urdu

دنیا کی سب سے انمول چیز بہن کا پیار ہوتاہے ۔

خوش نصیب ہے وہ بھائی جس کی بہن اس کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتی ہے ۔

بھائی اور بہن کے درمیان اگر لڑائی نہ ہو تو زندگی بہت بورنگ لگتی ہے ۔

بھائی اپنی بہن سے چاہے کتنی ہی لڑائی کیوں نہ کرلے لیکن اپنی بہن کی آنکھ میں آنسو تک نہیں دیکھ سکتا ۔

بھائیوں کے حق مانگی ہوئی بہنوں کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی ۔

بہن چھوٹی ہو یا بڑی ہمیشہ اپنے بھائی کا خیال رکھتی ہے ۔

بہنوں کو سب سے زیادہ رولاتے بھی بھائی ہیں اور ہنسانے بھی بھائی ہیں ۔

بہنوں کا دل مت توڑا کرو کیونکہ ان کا دل موم کی طرح ہوتا ہے

بہت یاد آتی ہیں بہنیں جب پرائی ہوجاتی ہیں

دور ہو جانے سے بہنوں کا پیار کبھی کم نہیں ہوتا۔

Best 10 Urdu Poetry in 2 Lines

0

Urdu poetry in 2 lines evolved into a complex artistic expression that transforms profound emotions as well as romantic and intellectual ideas and societal insights into elegant literary works. The language developed through Persian and Arabic influences before it peaked during the Mughal rule under the poetic influence of Mirza Ghalib and Allama Iqbal.

Ghazals and Nazms Rubaiyat and Marsiyas comprise the major forms of Urdu poetry with distinctive formal elements. Modern-day heritage of Urdu poetry maintains its influence by thriving through digital platforms as well as Mushairas (poetry events) and social media presence which drives inspiration to people across worldwide generations.

Urdu Poetry in 2 Lines

تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے

میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں

میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر

ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن

چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر

اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی

مستقل بولتا ہی رہتا ہوں

کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

آخری بار آہ کر لی ہے

میں نے خود سے نباہ کر لی ہے

دن بھلا کس طرح گزارو گے

وصل کی شب بھی اب گزر لی ہے

میرا کشکول کب سے خالی تھا

میں نے اس میں شراب بھر لی ہے

شیخ آیا تھا محتسب کو لیے

میں نے بھی ان کی وہ خبر لی ہے

دل کی تکلیف کم نہیں کرتے

اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے

قیامت کے روز فرشتوں کو کیسے موت آئیگی؟

0

قیامت کے دن، جب ساری کائنات فنا ہو جائے گی، تو فرشتے بھی موت کے گھاٹ اتار دیے جائیں گے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا بیان کچھ اس طرح ملتا ہے:

صور پھونکنے کے مراحل

حضرت اسرافیل علیہ السلام اللہ کے حکم سے پہلی بار صور پھونکیں گے، جس کے نتیجے میں تمام مخلوقات فنا ہو جائیں گی۔ اللہ کے علاوہ کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا۔

فرشتوں کی موت کیسے ہوگی؟

جب تمام انسان، جنات، حیوانات اور دیگر مخلوقات مر چکی ہوں گی، تو اللہ تعالی حضرت ملک الموت (عزرائیل) علیہ السلام کو حکم دیں گے کہ وہ باقی تمام فرشتوں کی روح قبض کر لیں۔

  • سب سے پہلے تمام عام فرشتے ختم کر دیے جائیں گے۔
  • پھر آسمان کے فرشتے، جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، ان کی باری آئے گی۔
  • اس کے بعد حضرت جبرائیل، حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیہم السلام کو بھی موت دے دی جائے گی۔
  • آخر میں اللہ تعالی حضرت عزرائیل (ملک الموت) کو بھی موت کا حکم دیں گے، اور وہ بھی مر جائیں گے۔

جب اللہ کے سوا کوئی نہ ہوگا

جب ساری کائنات فنا ہو جائے گی اور صرف اللہ واحد القہار باقی رہیں گے، تو اللہ فرمائیں گے:

“لِمَنِ ٱلْمُلْكُ ٱلْيَوْمَ؟”
(آج کس کی بادشاہت ہے؟)

کوئی جواب دینے والا نہ ہوگا، تو اللہ خود جواب دیں گے:

“لِلَّهِ ٱلْوَاحِدِ ٱلْقَهَّارِ”
(صرف اللہ واحد القہار کی بادشاہت ہے)۔

دوبارہ زندگی کا آغاز

پھر اللہ تعالی دوسری مرتبہ صور پھونکنے کا حکم دیں گے، جس سے تمام مخلوقات دوبارہ زندہ ہو جائیں گی اور قیامت کا حساب کتاب شروع ہو جائے گا۔

یہ منظر نہایت ہیبت ناک اور اللہ کی قدرت کی عظمت کا مظہر ہوگا، جہاں ہر مخلوق کو اپنی نجات کی فکر ہوگی۔

اللہ ہمیں قیامت کے دن اپنے عذاب سے محفوظ فرمائے اور ہمیں بخشش عطا فرمائے۔ آمین!

رمضان کی فضیلت اور اہمیت

0

رمضان المبارک: برکتوں اور مغفرت کا مہینہ

رمضان کا مہینہ اسلامی سال کا سب سے بابرکت مہینہ ہے، جو رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا پیغام لے کر آتا ہے۔ اس مقدس مہینے کی فضیلت خود نبی کریم ﷺ نے اپنے بلند و بالا منبر سے امت کو سنائی تھی:

“اے لوگو! رمضان کا مہینہ تمہاری طرف آ رہا ہے، جو برکت، رحمت اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ اللہ کے نزدیک یہ سب سے عظیم مہینہ ہے، اس کے دن سب سے بہتر، اس کی راتیں سب سے افضل، اور اس کی گھڑیاں سب سے قیمتی ہیں۔”

یہی وہ مہینہ ہے جس میں عبادات کا صلہ کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے، سانسیں بھی تسبیح کا ثواب رکھتی ہیں، اور ہر دعا کی قبولیت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔

رمضان المبارک کی عظمت اور برکتیں

حضرت امام زین العابدینؓ رمضان کو “شہر الاسلام” یعنی اسلام کا مہینہ قرار دیتے ہیں۔ اس مہینے میں ہر نیک عمل کئی گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں:
“روزے دار کی نیند بھی عبادت ہے، اس کی خاموشی تسبیح، اور اس کے اعمال مقبول ہوتے ہیں۔”

یہی وہ مقدس مہینہ ہے جس میں آسمانی کتابیں نازل ہوئیں۔

  • تورات رمضان میں نازل ہوئی
  • زبور رمضان میں نازل ہوئی
  • انجیل رمضان میں نازل ہوئی
  • قرآن مجید چوبیس رمضان المبارک کو لوح محفوظ سے نازل ہوا

اسی لیے اللہ نے قرآن میں فرمایا:
“رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے ہدایت اور حق و باطل میں فرق کرنے والی نشانیوں پر مشتمل ہے۔” (البقرہ 185)

لیلۃ القدر: ہزار راتوں سے افضل

رمضان کی سب سے بڑی فضیلت شبِ قدر ہے، جو آخری عشرے کی طاق راتوں میں پوشیدہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو، خاص طور پر اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں راتوں میں۔”

ایک اور حدیث میں آتا ہے:
“جو شخص ایمان اور طلبِ ثواب کے ساتھ لیلۃ القدر میں عبادت کرتا ہے، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔”

یہی وہ رات ہے جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا:
“لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔” (سورۃ القدر 3)

اعتکاف: اللہ کی قربت کا ذریعہ

رمضان کی ایک اور عظیم عبادت اعتکاف ہے، جو آخری عشرے میں اللہ کی عبادت کے لیے مسجد میں ٹھہرنے کو کہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“جو شخص اللہ کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے، اللہ اسے جہنم سے تین خندقوں کے فاصلے پر کر دیتا ہے، اور ہر خندق کا فاصلہ مشرق سے مغرب جتنا ہے۔”

روزہ: خالص عبادت اور بے مثال اجر

روزہ ایسی عبادت ہے جسے انسان دکھاوے کے لیے نہیں رکھ سکتا، بلکہ یہ صرف اور صرف اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا:
“روزہ میرے لیے ہے، اور میں خود اس کا اجر دوں گا۔”

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
“روزہ انسان اور اللہ کے درمیان ایک خفیہ عبادت ہے، جس کا حقیقی اجر صرف اللہ ہی دے سکتا ہے۔”

یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے پوچھا:
“اے اللہ! کیا کوئی میری طرح بھی مکرم و محترم ہے؟”
اللہ نے فرمایا:
“آخری زمانے میں میرے کچھ بندے ہوں گے، جنہیں میں رمضان کے روزوں کی برکت سے عزت بخشوں گا۔”

رمضان المبارک: بخشش اور رحمت کا موسم

یہ مہینہ بندے اور رب کے درمیان تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔ اس میں ہر نیکی کئی گنا بڑھا دی جاتی ہے، اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ جو شخص اس مہینے سے فائدہ نہیں اٹھاتا، وہ درحقیقت بہت بڑی نیکی سے محروم رہتا ہے۔

اللہ ہمیں رمضان کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور اسے ایمان و تقویٰ کے ساتھ گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

ماہ شعبان کی فضیلت

0

شعبان: برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ

شعبان کا مہینہ بے شمار فضیلتوں اور برکتوں سے بھرپور ہے، جس کی اہمیت ہمیں قرآن و حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“رجب اللہ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔”

یہی وجہ ہے کہ شعبان کو رمضان کی تیاری کا مہینہ کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں عبادات میں مزید اضافہ فرماتے اور رمضان کی آمد کا شدت سے انتظار کرتے۔

شعبان کے چاند کی فضیلت

شعبان کا چاند ایک خاص برکت والا چاند ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی تیاری رجب اور شعبان کے مہینوں سے ہی شروع کر دیتے اور خصوصی دعائیں مانگا کرتے۔

شعبان کا چاند دیکھنے کی مسنون دعا

جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرماتے:

اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا شَهْرَ رَمَضَانَ

“اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما، اور ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب فرما۔”

یہ دعا نہ صرف برکت کے حصول کا ذریعہ ہے بلکہ رمضان کی تیاری کی ایک عملی شکل بھی ہے۔

ماہِ شعبان میں عبادات کی اہمیت

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
“میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا جتنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں رکھتے تھے۔”

یہ مہینہ درحقیقت گناہوں کی معافی، نیکیوں میں اضافے اور رمضان کے لیے روحانی تیاری کا سنہری موقع ہے۔

شعبان کے چاند سے جڑا ایک خاص وظیفہ

یہ وظیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، جو دولت اور رزق میں اضافے کے لیے نہایت مجرب ہے۔

طریقہ:

  1. شعبان کا چاند دیکھ کر 11 مرتبہ سورہ الفاتحہ پڑھیں۔
  2. پھر 313 مرتبہ “یا واسعُ یا رزاقُ” کا ورد کریں۔
  3. آخر میں درود شریف 11 بار پڑھ کر اللہ سے رزق میں برکت اور کامیابی کی دعا مانگیں۔

یہ ایک ایسا آزمودہ عمل ہے جس سے بے شمار لوگوں کو خیر و برکت نصیب ہوئی ہے۔

شعبان: رمضان کی تیاری کا مہینہ

شعبان دراصل رمضان المبارک کا پیش خیمہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے چاند کی درست گنتی کے لیے شعبان کی تاریخوں کو یاد رکھنے کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے تاکہ رمضان المبارک کا آغاز درست طور پر کیا جا سکے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“رمضان کی درست تعیین کے لیے شعبان کا چاند دیکھنے کا اہتمام کیا کرو۔”

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی تیاری کے لیے ہمیں بھی شعبان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے تاکہ رمضان المبارک میں بھرپور روحانی فوائد حاصل کر سکیں۔

شعبان کی راتوں کی برکتیں

ماہِ شعبان کی خاص راتوں میں عبادت کا بے حد اجر ہے۔ خاص طور پر شب برات (پندرھویں شعبان کی رات) کو مغفرت کی رات کہا جاتا ہے۔ اس رات اللہ رب العزت بے شمار لوگوں کے گناہ معاف فرماتا ہے اور ان کے رزق، صحت اور زندگی کے فیصلے فرماتا ہے۔

نتیجہ

شعبان ایک ایسا مہینہ ہے جو ہمیں رمضان کی روحانی بلندیوں کے لیے تیار کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس مہینے میں عبادات، استغفار اور دعاؤں کا خاص اہتمام کریں تاکہ رمضان کے فیوض و برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں۔

اللہ تعالی ہمیں اس مقدس مہینے کی برکات کو سمجھنے اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

قرآن کی شفاعی اہمیت

0

قرآن پاک – شفا اور رحمت کا ذریعہ

قرآن پاک صرف ہدایت کی کتاب نہیں بلکہ بیماریوں سے شفا کا ذریعہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر فرمایا ہے کہ یہ مومنوں کے لیے رحمت اور دلوں کی بیماریوں کا علاج ہے۔

قرآن میں شفا کا ذکر

سورہ بنی اسرائیل، آیت 82:
“اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل کرتے ہیں جو شفا اور مومنوں کے لیے رحمت ہے۔”

سورہ یونس، آیت 57:
“اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ چکی ہے، جو دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا ہے اور مومنوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔”

سورہ حم السجدہ، آیت 44:
“کہہ دیجیے کہ یہ (قرآن) ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے۔”

نبی کریم ﷺ اور علمائے کرام کی باتیں

حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:
“سب سے بہترین دعا قرآن ہے۔” (ابن ماجہ)

مشہور عالم امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“قرآن ہر بیماری کی شفا ہے، چاہے وہ دل کی ہو یا جسم کی۔ اگر کسی کو قرآن سے شفا نہ ملے تو اسے کسی اور چیز سے بھی نہیں مل سکتی۔”

جھاڑ پھونک (دم) اور قرآن

رسول اللہ ﷺ نے نظر بد، زخم اور زہریلے جانور کے کاٹنے پر دم کرنے کی اجازت دی۔ (صحیح مسلم)

امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ دم (جھاڑ پھونک) ہر بیماری میں مفید ہے، بشرطیکہ قرآن اور نبی ﷺ کی دعاؤں سے کیا جائے۔

قرآن سے علاج کیسے کیا جائے؟

  • شرک اور بدعت سے بچیں – قرآن سے علاج کرنے والے کو اللہ پر مکمل بھروسہ ہونا چاہیے۔
  • اخلاص اور یقین ضروری ہے – دل میں شک نہ ہو، صرف اللہ سے شفا کی امید رکھیں۔
  • قرآن اور صحیح احادیث کا استعمال کریں – جو دعائیں پڑھی جائیں وہ قرآن یا نبی ﷺ سے ثابت ہوں۔
  • کسی نیک شخص کی دعا لینا جائز ہے – لیکن وہ دعا شرک سے پاک ہو۔
  • اللہ پر مکمل یقین رکھیں – شفا صرف اللہ ہی دیتا ہے، کسی اور کو اس کا ذریعہ نہ سمجھیں۔

نتیجہ

قرآن ایک معجزہ ہے جو جسمانی اور روحانی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔ جو شخص یقین اور اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کرتا ہے، وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوتا ہے۔

اللہ ہمیں قرآن کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔ آمین۔

دودھ کے ابلنے سے گھر میں کونسی مصیبت آتی ہے؟

0

آج ہم ایک اہم نقطۂ پر بات کرنے جا رہے ہیں کہ اگر دودھ ابالتے ہوئے فرش پر گر جائے یعنی ضائع ہو جائے۔ تو اس کے کیا نقصانات ہیں؟ یعنی مالی نقصانات کے علاوہ روحانی طور پر اس گھر میں کیا آفتیں آتی ہیں۔ اور کیا یہ بدشگونی کی علامت ہے؟ جیسا کہ عام طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کے بارے میں مختلف طرح کے سوالات سوشل میڈیا پر آئے روز گردش کرتے رہتے ہیں۔ اور اسی حوالے سے مختلف لوگ اس پر مختلف طرح کے نظریات بھی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

لیکن اس کے پیچھے کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے بارے میں ہم آپ کو بتانے جارہے ہیں اور دودھ جسے اللہ کا نور کہا جاتا ہے۔ اس بارے میں آپ کے ساتھ ایک ایسا واقعہ شیئر کرتے ہیں۔ جو امام علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دربار خلافت میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک خاتون آئی۔ اور ہاتھ جوڑ کر عرض کرنے لگی کہ یا علی ہمارے گھر میں جھگڑے بہت رہتے ہیں۔ ہر طرف تنگ دستی کا راج ہے۔ کوئی کسی سے محبت نہیں کرتا اور کوئی کسی کی خاطر ایثار نہیں کرتا۔ ایسا کیوں ہے؟

اس عورت کا یہ سوال کرنا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جنہیں باب العلم کہا گیا ہے۔ فورا معاملے کی تہہ میں پہنچ گئے۔ یہ حضرت علی ہی کی شان تھی کہ چند لمحوں میں انہوں نے وجہ اور حقیقت کا سراغ پا لیا۔ انہوں نے کہا کہ اے خاتون مجھے تم یہ بتاؤ کہ جب اپنے گھر میں اللہ کا فراہم کیا گیا رزق استعمال کرتے ہو۔ تو کیا اس میں سے کچھ ضائع بھی ہوتا ہے؟ اس عورت نے جواب دیا کہ یا علی رضی اللہ تعالی عنہ جب میں اپنے گھر میں دودھ ابالتی ہوں تو وہ تھوڑا ابل کر زمین پر گر جاتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ اے عورت جب جب اللہ کا دیا گیا رزق پامال ہوتا ہے یعنی پیروں میں آتا ہے۔ اس کی توہین ہوتی ہے۔ تو اس گھر سے رزق اٹھ جاتا ہے۔ بے برکتی آجاتی ہے۔ چنانچہ جب تنگ دستی اور غربت آتی ہے تو تمہارے گھر میں لڑائیاں جھگڑے ہوتے ہیں۔ پھر بے سکونی اور بے برکتی آتی ہے تم اللہ کے دیے گئے رزق کی حرمت بحال کرو اور ضمانت لے لو کہ تمہارے گھر میں برکت اور سکون اور رحمت واپس لوٹ آئیں گی۔ تمہارا یہ عمل سب گھر والوں کے دلوں میں اللہ تعالی محبت ڈال دے گا اور اللہ تعالی تمہارے گھر میں رزق کی فراوانی عطا کر دے گا۔

خواتین و حضرات بظاہر یہ بڑی معمولی سی بات لگتی ہے ہم اکثر اپنے گھروں میں دیکھتے ہیں کہ مائیں بہنیں چولہے پر دودھ ابالنے کے لیے رکھ دیتی ہیں اور پھر وہ دودھ چولہے کی تیز آگ پر ابلتا رہتا ہے اور وہ اپنی بے خیالی بے دھیانی میں اس کو بھول جاتی ہیں اور اللہ کا نور اللہ کا دیا گیا یہ رزق ضائع ہوتا رہتا ہے یہاں اگر چند ذہنوں میں کچھ تشکیک سوالات ابھرتے ہیں۔

تو ان کے لیے ہم ابن ماجہ کی ایک حدیث شیئر کر دیتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ تاجدار مدینہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں تشریف لائے اور روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا دیکھا آپ نے اس کو اٹھایا صاف کیا اور کھا لیا اور فرمایا کہ اچھی چیز کا احترام کیا کرو رزق جب کسی سے بھاگتا ہے تو لوٹ کر نہیں آتا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو ہدایت اور توفیق نصیب فرمائے کہ ہم اس کے عطا کیے گئے رزق کو ضائع نہ کریں اس کے عطا کیے گئے رزق کی توہین اور بے حرمتی نہ کریں اور اضافی رزق میں دوسروں کو بھی شریک کریں اور اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی حاصل کریں

حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ

0

حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ

حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید کی سورۃ الکہف میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک حکمت اور صبر کی منفرد کہانی ہے، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے درمیان پیش آنے والے تین حیران کن واقعات شامل ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کا واقعہ

ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں خطاب کے دوران فرمایا کہ دنیا میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا شخص میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعے بتایا کہ ایک ایسا بندہ موجود ہے جو بعض خاص علم رکھتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ وہ اس بندے سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ نے انہیں ہدایت دی کہ جہاں پانی کی دو بڑی لہریں (دریاؤں کا سنگم) آپس میں ملتی ہیں، وہاں انہیں وہ شخصیت ملے گی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کا آغاز

حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ایک شاگرد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے ساتھ اس جگہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک مچھلی کا معجزہ رونما ہوا، جو زندہ ہو کر پانی میں چلی گئی۔ یہ اس جگہ کی نشانی تھی جہاں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہونی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب وہاں پہنچے تو انہیں حضرت خضر علیہ السلام مل گئے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا صبر کا امتحان

حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ وہ ان کے ساتھ چل سکتے ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ وہ صبر کریں گے اور کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کریں گے، جب تک کہ وہ خود اس کی وضاحت نہ کر دیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حامی بھر لی، اور دونوں کا سفر شروع ہو گیا۔

تین حیران کن واقعات

  1. کشتی میں سوراخ کرنا
    حضرت خضر علیہ السلام نے ایک کشتی میں سوراخ کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے رہا نہ گیا اور فوراً اعتراض کیا کہ آپ نے کشتی کو کیوں نقصان پہنچایا؟ حضرت خضر علیہ السلام نے انہیں یاد دلایا کہ وہ سوال نہ کریں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے معذرت کر لی۔
  2. بچے کا قتل
    تھوڑی دور جا کر حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بچے کو قتل کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صبر نہ ہوا اور انہوں نے پھر اعتراض کر دیا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے دوبارہ انہیں یاد دلایا کہ انہوں نے صبر کی شرط رکھی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار پھر معافی مانگ لی اور کہا کہ اگر وہ آئندہ سوال کریں تو انہیں ساتھ نہ رکھا جائے۔
  3. دیوار کی تعمیر
    پھر وہ ایک گاؤں میں پہنچے جہاں کے لوگوں نے انہیں کھانے کے لیے کچھ دینے سے انکار کر دیا۔ وہاں ایک گرتی ہوئی دیوار تھی، جسے حضرت خضر علیہ السلام نے بغیر کسی اجرت کے ٹھیک کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حیران ہو کر پوچھا کہ آپ نے بغیر کسی فائدے کے یہ کام کیوں کیا؟ اس پر حضرت خضر علیہ السلام نے کہا کہ اب ہمارا ساتھ ختم ہوا اور میں تمہیں ان تینوں کاموں کی حقیقت بتاتا ہوں۔

واقعات کی حکمت

  1. کشتی میں سوراخ کرنے کی وجہ
    وہ کشتی کچھ غریب لوگوں کی تھی جو سمندر میں مزدوری کرتے تھے۔ ایک ظالم بادشاہ ہر اچھی کشتی کو زبردستی چھین رہا تھا، تو حضرت خضر علیہ السلام نے اسے عیب دار بنا دیا تاکہ وہ بادشاہ کی نظر سے بچ جائے۔
  2. بچے کا قتل کرنے کی وجہ
    وہ بچہ بڑا ہو کر نافرمان اور گمراہ ہونے والا تھا، اور اس کے والدین نیک اور صالح تھے۔ اللہ نے چاہا کہ ان کو اس آزمائش سے بچا کر ایک نیک اولاد عطا کرے۔
  3. دیوار کی تعمیر کی وجہ
    اس دیوار کے نیچے دو یتیم بچوں کا خزانہ دفن تھا، جو ان کے نیک والد نے چھپا رکھا تھا۔ اگر دیوار گر جاتی تو لوگ خزانہ نکال لیتے۔ اللہ نے چاہا کہ بچے بڑے ہو کر خود اسے نکالیں۔

نتیجہ

حضرت خضر علیہ السلام کے ان واقعات سے ہمیں صبر، حکمت اور اللہ کی تدبیر پر بھروسہ کرنے کا درس ملتا ہے۔ بعض اوقات ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے، وہ حقیقت میں ویسا نہیں ہوتا، اور اللہ کی مصلحتیں ہماری فہم سے بالاتر ہوتی ہیں۔

یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ ہر کام میں ایک حکمت رکھتا ہے، اور ہمیں ہر حال میں اس پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

واقعہ کربلا

0

یہ واقعہ کربلا تاریخ اسلام کے ان الم ناک اور لازوال سانحات میں سے ایک ہے جو قیامت تک نہیں بھلایا جا سکتا۔ نواسہ رسول، حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کی قربانی نے حق اور باطل کے درمیان ہمیشہ کے لیے ایک واضح لکیر کھینچ دی۔

یزید کی خلافت اور امام حسینؓ کا انکار

یزید خلافت کے منصب پر قابض ہو چکا تھا، اور اس کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج حضرت امام حسینؓ کی ذات تھی۔ آپ نے نانا کے دین پر مر مٹنے کی قسم کھائی تھی اور کسی ظالم کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہ تھے۔ یزید گمان کر رہا تھا کہ امام حسینؓ، اپنے والد حضرت علیؓ اور بھائی حضرت حسنؓ کی شہادت کے بعد کمزور ہو چکے ہیں، مگر وہ اس حقیقت سے غافل تھا کہ امام حسینؓ کے لیے دنیاوی حکومت کی کوئی وقعت نہ تھی۔

کوفہ والوں کی دعوت

کوفہ کے مظلوم عوام کی جانب سے امام حسینؓ کو سینکڑوں خطوط موصول ہوئے، جن میں انہیں یزید کی بے دینی اور مظالم سے آگاہ کیا گیا۔ ان خطوط میں التجا کی گئی کہ آپ کوفہ آئیں اور دین اسلام کو بچائیں۔ آپ کو اطلاع ملی کہ شراب نوشی عام ہو چکی ہے اور اسلامی اقدار پامال ہو رہی ہیں۔ اپنے نانا کے دین کو بچانے کی خاطر آپ نے مدینہ سے کوفہ جانے کا ارادہ کر لیا۔

مدینہ سے مکہ اور پھر کربلا کی طرف سفر

رجب 60 ہجری میں، امام حسینؓ اپنے 72 ساتھیوں اور اہلِ خانہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ مکہ پہنچنے کے بعد آپ کو خبر ملی کہ کوفہ کے حالات سازگار نہیں رہے، کیونکہ ابن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو دھوکے سے شہید کر دیا تھا۔ اس کے باوجود، امام حسینؓ نے حق کی راہ میں قدم آگے ہی بڑھایا اور دو محرم 61 ہجری کو کربلا پہنچے۔

کربلا: صبر و استقامت کی آزمائش

کربلا کے تپتے صحرا میں پہنچ کر امام حسینؓ نے خیمے لگائے۔ یزیدی فوج نے تین محرم الحرام کو آپ کے قافلے کو گھیرے میں لے لیا، اور سات محرم کو پانی کی فراہمی بند کر دی گئی۔ پیاس کی شدت سے بچوں، خواتین اور جان نثار ساتھیوں کی حالت بگڑنے لگی، مگر امام حسینؓ کا عزم متزلزل نہ ہوا۔

نو محرم کی رات: وفاداری کی مثال

نو محرم کی رات امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جو جانا چاہے، چلا جائے، کیونکہ اگلی صبح جنگ یقینی تھی۔ مگر کسی نے ساتھ نہ چھوڑا۔ سب نے حق پر قائم رہنے کی قسم کھائی۔

دسویں محرم: قربانی کی لازوال داستان

دس محرم کی صبح ایک ایک کر کے امام حسینؓ کے ساتھی شہید ہوتے گئے۔ حضرت عباسؓ، جو علمبردار تھے، مشکیزہ لے کر پانی لانے گئے، مگر دشمنوں نے حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا۔ پھر حضرت علی اکبرؓ، حضرت قاسمؓ، اور دیگر اہل بیت بھی شہید ہو گئے۔

امام حسینؓ کی آخری نماز

عصر کے وقت امام حسینؓ نے نماز ادا کرنے کے لیے سجدہ کیا تو شمر نے سر تن سے جدا کر دیا۔ یزیدی فوج نے خیموں کو آگ لگا دی اور اہل بیت کی خواتین کو قیدی بنا لیا۔

واقعہ کربلا کا پیغام

یہ معرکہ صبر، قربانی اور حق کی فتح کا اعلان تھا۔ امام حسینؓ کی شہادت نے امت مسلمہ کو سکھا دیا کہ ظلم کے آگے سر جھکانا مومن کی شان نہیں۔

یہ واقعہ رہتی دنیا تک انسانیت کو استقامت، صبر اور حق کی سربلندی کا درس دیتا رہے گا۔